Passion or Death? | شوق یا موت؟ (Episode 2/Last Episode)

passion-or-death-ep-1.png

Image1, Image2 edited using Adobe Express


FOR EPISODE 1, CLICK HERE


Second Part:

Asim stormed out of the house, seething with anger after being scolded by his father. He was at a loss about what to do or where to go. He had even left the motorcycle key at home. Feeling desperate, he decided to call his friend Saim, hoping they could go out together. Saim, like Asim, was an only child, but his situation was different—Saim’s father had passed away, and he was the sole breadwinner for his family. Despite his busy schedule, Saim always made time for his close friend Asim, whom he had known since their school days.

Asim dialed Saim's number, his voice hurried and tense. "Saim! Where are you? Come over to my house right away."

Saim, who had just returned home and was about to rest, sensed the urgency in Asim’s voice. "I'm at home. Is everything alright? You sound so distressed. We just met a while ago; what happened suddenly?"

"It's the same old lecture from Dad. I'm fed up with my life. I couldn't even eat properly. Just come over quickly," Asim replied.

"Alright, I'm coming," Saim said, getting up immediately, grabbing his bike keys, and heading out.

"Brother, Don't Go."

"Where are you going, son? You just got back. Rest for a while," Saim's mother called out as she saw him leaving.

"Mom, it's Asim. He's very upset. His father scolded him again for speeding on his bike. He wants me to take him out for a bit. He hasn’t eaten either, so I'll take him to get some food," Saim explained.

"Did he fight with his father again? That boy never listens. Who argues with their parents? Son, try to talk some sense into him. He'll only cause more trouble if he doesn't change," his mother advised, worriedly.

"Don't worry, Mom. It's his issue. He'll come around eventually. His parents also try to guide him. I'll be back soon. Take care," Saim reassured her and started to leave.

"Just drive safely. Don't let him influence you. If anything happens to you, we wouldn't be able to bear it," she said tearfully.

"Don't worry, Mom. I always drive carefully. I won't do anything foolish," Saim promised, trying to calm her.

His youngest sister clung to him, pleading, "Don't go, brother. I'm feeling anxious."

Saim had three sisters and was their only brother, so they were very protective and worried about him. "I'll be back soon. Do your homework until I return. Be good," he said, gently patting her cheek.

Within minutes, he started his bike and headed to Asim's house.
After Saim's father's death, their mother had single-handedly raised and educated her children. Saim deeply respected and obeyed her because of her immense sacrifices. On the other hand, Asim, being the only child, was spoiled and headstrong, always doing what he wanted without listening to anyone. His parents indulged his every whim, making him proud of being their sole focus. But, as they say, bad times don’t announce their arrival. And this was one such moment that would bring a drastic change in Asim's life—something he had never imagined even in his wildest dreams.

Asim was pacing outside his house when he saw Saim approaching in the distance. Saim had come to pick him up.


(دوسرا حصہ)

عاصم اپنے ابو سے ڈانٹ پڑنے پر انتہائی غصے کی حالت میں گھر سے باہر نکل آیا تھا. اسے اب سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے اور کدھر جائے؟ موٹرسائیکل کی چابی بھی وہ گھر چھوڑ آیا تھا. اس لیے اس نے سوچا کہ اپنے دوست کو بلا کر اس کے ساتھ کہیں باہر چلا جائے. چنانچہ اس نے فوراً اپنے دوست صائم کو کال ملائی. صائم بھی عاصم کی طرح گھر کا اکلوتا بیٹا تھا. مگر اتنا فرق تھا کہ صائم کے والد کا انتقال ہو چکا تھا. وہ اپنے گھر کے معاش کا اکلوتا سہارا تھا. اس لیے وہ اکثر اوقات معاش کے سلسلے میں ہی مصروف رہتا تھا. عاصم اس کا بہت قریبی اور پرانا دوست تھا. سکول سے ہی وہ اکٹھے پڑھتے رہے تھے. اس لیے عاصم کو جب بھی کبھی مدد کی ضرورت ہوتی تو وہ سب سے پہلے صائم کو ہی یاد کرتا تھا. آج بھی عاصم کے ذہن میں یہی خیال آیا. سب سے پہلے اس نے صائم کو فون لگایا. جیسے ہی صائم نے فون اٹھایا، عاصم جلدی سے بولا: صائم! تم کہاں ہو؟ ابھی جلدی سے میرے گھر آجاؤ.

میں تو اپنے گھر پر ہوں. سب خیریت تو ہے نا؟ کیا ہوا؟ اتنے بدحواس کیوں لگ رہے ہو؟ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو ہم ملے تھے. اچانک کیا ہو گیا؟ صائم جو کچھ دیر پہلے ہی عاصم سے ملا تھا. ابھی گھر آ کر بستر پر لیٹا ہی تھا کہ اچانک سے عاصم کی کال آنے پر پریشان ہو گیا.
ہاں یار وہی ابو کا روز کا لیکچر. پریشان ہو گیا ہوں میں اپنی زندگی سے. صحیح سے کھانا بھی نہیں کھا سکا ہوں. بس جلدی سے تم آجاؤ مجھے لینے. عاصم نے جواب دیا.

ٹھیک ہے بھائی. میں آتا ہوں. صائم جو ابھی آرام کی غرض سے لیٹا ہی تھا، جھٹ سے اٹھا. بائیک کی چابی لی اور عاصم کو لینے چل پڑا.

بھائی مت جاؤ!

کہاں جا رہے ہو بیٹا؟ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو واپس آئے ہو. کچھ دیر آرام کر لو. صائم کی ماں نے اسے باہر جاتے ہوئے دیکھا تو اسے بلا کر پوچھنے لگیں.

جی امی! دراصل وہ عاصم کی کال آئی ہے. وہ بہت پریشان ہے. اس کے ابو نے اسے آج پھر تیز بائیک چلانے پر اچھی خاصی جھاڑ پلائی ہے. اب وہ مجھے بلا رہا ہے، تاکہ کچھ دیر باہر جا کر دل ہلکا کر لے. اسی کو لینے جا رہا ہوں اور اس نے کھانا بھی نہیں کھایا ہے تو میں اسے کہیں کھانا کھلانے لے جاؤں گا.

کیوں؟ آج پھر جھگڑا کر لیا اس نے اپنے ابو سے؟ پتہ نہیں کیسا بیٹا ہے یہ؟ سنتا ہی نہیں کسی کی. کوئی اپنے ماں باپ سے بھلا لڑ سکتا ہے؟ لا حول ولا قوۃ الا باللہ. بیٹا! میری مانو تو اس کو سمجھاؤ. ورنہ وہ کل کو سب کے لیے مصیبتیں پیدا کرے گا. صائم کی امی پریشانی میں بولیں.
ارے امی. چھوڑیں نا. آپ کیوں پریشان ہو رہی ہیں. وہ اس کا مسئلہ ہے. آپ بالکل پریشان نا ہوں. وہ سدھر جائے گا. اس کے والدین بھی اسے سمجھاتے رہتے ہیں. ایک نہ ایک دن وہ ضرور سمجھ جائے گا. اچھا میں چلتا ہوں. آپ اپنا خیال رکھیے گا. صائم یہ کہتے ہوۂے باہر جانے لگا.
اچھا سنو بیٹا. تم آرام سے بائیک چلانا. اس کے کہنے میں مت آنا. اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو ہم جیتے جی مر جائیں گے. صائم کی امی تقريباً روہانسی ہو کر بولیں.

جی امی! آپ بالکل بے فکر ہو جائیں. میں احتیاط سے ہی چلاتا ہوں بائیک. اس قسم کی بے وقوفی نہیں کرتا. صائم اپنی ماں کو تسلی دیتے ہوئے بولا.

بھائی. مت جائیں نا آپ. میرا دل گھبرا رہا ہے. صائم کی سب سے چھوٹی بہن نے اس سے لپٹ کر پیار سے کہا. صائم کی تین بہنیں تھیں اور صائم ان کا اکلوتا بھائی تھا. اس لیے ان کو اپنے بھائی سے بے انتہا محبت تھی اور اپنے بھائی کی بہت زیادہ فکر رہتی تھی کہ کہیں عاصم کے ساتھ رہ رہ کر یہ بھی عاصم کی طرح نا ہو جائے. یا عاصم کی وجہ سے اسے کوئی نقصان نہ پہنچ جائے.

منی! میں تھوڑی دیر تک آجاؤں گا. چلو. اپنا ہوم ورک مکمل کرو، تب تک میں واپس آجاتا ہو‌ں. شاباش. صائم پیار سے اپنی بہن کے گلابی گالوں کو ہاتھ میں لیے گویا ہوا. کچھ ہی دیر میں وہ بائیک سٹارٹ کرکے عاصم کی طرف روانہ ہو گیا.

صائم کے ابو کی وفات کے بعد صائم اور اس کے بہن بھائیوں کو ان کی امی نے ہی پال پوس کر تعلیم دلائی تھی. وہی ان کے لیے ماں بھی تھیں تو باپ بھی. صائم اپنی ماں کی ہر بات مانتا تھا، ان کا بہت زیادہ احترام کرتا تھا کیونکہ اس کی ماں نے ان چاروں کو بہت محنت سے پالا تھا. جبکہ عاصم اپنے والدین کے لاڈ پیار کی وجہ سے بہت خود سر ہو چکا تھا. ہر چیز میں اپنی من مانی کرتا تھا، جو دل میں آئے وہ کرتا تھا کسی کی نہیں سنتا تھا اور اس کے اکلوتا ہونے کی وجہ سے اس کی ماں نے اس کی ہر خواہش پوری کی تھی. اسی بات پر بھی اس کو بہت غرور تھا کہ وہ اکلوتا ہے. سب اس کی بات مانتے ہیں. لیکن کہتے ہیں نا کہ برا وقت بتا کر نہیں آتا. اور یہی وہ وقت تھا جو عاصم کی زندگی میں ایک بہت بڑی تبدیلی لانے والا تھا. ایسی خوفناک تبدیلی جس کا تصور اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں کیا تھا. عاصم اپنے گھر کے باہر ہی ٹہل رہا تھا کہ اتنے میں اسے دور سے صائم آتا دکھائی دیا. وہ اسے لینے آچکا تھا.

image2.png

DALL·E 3


The Accident:

"Where were you, man? I've been waiting forever. Were you riding a donkey?" Asim snapped as soon as Saim arrived, irritated by the delay.

"Asim, you know I drive carefully. My mother doesn't like it when I ride recklessly like you do," Saim replied.

"If you drove like me, we would have had dinner by now and been back home. Just give me the bike keys. I'll drive," Asim demanded.

"Why?" Saim asked, puzzled.

"Because you drive so slowly that I feel like sleeping. It'll be night by the time we get there. Give me the keys. I'll get us there quickly and back, and the ride will be fun," Asim insisted.
Despite Saim's efforts to reason with him, Asim wouldn't listen. Reluctantly, Saim handed over the keys. Asim started the bike with a powerful kick and zoomed off at high speed. Ignoring Saim's constant pleas to slow down, he kept accelerating, feeling thrilled by the rush. Unfamiliar with Saim's bike, he initially struggled but soon got the hang of it.

They were headed towards a food street. To avoid the traffic on the main road, Asim decided to take a one-way street. Saim warned him against it, but Asim, driven by his own rules, didn't care. As they approached a bend, Asim didn’t reduce speed. Suddenly, a heavily loaded truck appeared in front of them. Unable to control the bike, Asim crashed straight into the truck.

Saim, unprepared for the crash, quickly pushed Asim to the side of the road and tried to jump himself. But he wasn’t as lucky—his torso made it, but his head hit the truck's rear end. In his last moments, Saim's mind flashed with images of his worried mother and loving sisters. He wanted to rush back to them, but everything went dark as he bled out and died on the spot. Asim, though injured, watched helplessly, unable to move.


حادثہ:

کہاں رہ گئے تھے یار؟ کب سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں. گدھے پر سوار ہو کر آرہا تھا کیا؟ عاصم چھوٹتے ہی بولا. شاید اسے صائم پر غصہ تھا کہ اس نے ذرا سے راستے میں اتنی دیر لگا دی.

عاصم تمہیں تو معلوم ہی ہے. میں بہت احتیاط سے نارمل ڈرائیونگ کرتا ہوں. میری امی کو تمہاری طرح ہواؤں میں بائیک اڑانا بالکل پسند نہیں ہے. صائم نے اپنا عذر بیان کیا.

ہاں میری طرح ہوا میں اڑاتے، تو اب تک ہم جا کر کھانا کھا چکے ہوتے بلکہ واپس بھی آ چکے ہوتے. عاصم نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا.

دائم اس کی بات سن کر بس دیکھ کر صبر کے گھونٹ بھرتا رہ گیا.

چلو. اب بائیک کی چابی مجھے دے دو. میں بائیک چلاؤں گا. عاصم نے صائم سے بائیک کی چابی مانگی. عاصم کا مطالبہ سن کر صائم نے حیرانگی سے پوچھا؟ وہ کیوں؟

کیونکہ تم اتنی آہستہ بائیک چلاتے ہو کہ مجھے پیچھے بیٹھ کر نیند آنے لگتی ہے. پہنچتے پہنچتے ہمیں رات ہو جائے گی. اس لیے چپ چاپ چابی مجھے دے دو. میں ٹائم سے لے جاؤں گا اور واپس بھی جلدی آجائیں گے. سفر بھی مزے سے گزرے گا. عاصم نے پر زور مطالبہ کیا.

صائم نے اپنے تئیں بہت کوشش کی. اسے سمجھایا، بہت منع کیا مگر عاصم نے ایک نا سنی اور مجبوراً صائم کو چابی دینی پڑی. عاصم نے چابی ہاتھ میں آتے ہی بائیک کو زوردار کک لگائی اور بائیک کو فل اسپیڈ میں دوڑانے لگا. اسے دائیں بائیں کا کچھ پتہ نہ تھا. بس وہ خود کو ریلیکس کرنے کے لیے یہ موت کا کھیل کھیلنا چاہتا تھا. صائم پیچھے بیٹھا اسے مسلسل منع کرتا رہا کہ آہستہ چلاؤ لیکن عاصم پر جیسے بھوت سوار تھا. وہ اس کی بات سنی ان سنی کرتا ہوا مسلسل سپیڈ بڑھائے جا رہا تھا. اسے اپنی بائیک کی عادت تھی. اس لیے دوسری بائیک چلاتے وقت شروع میں اسے پریشانی محسوس ہوئی مگر وہ اس بات کو خاطر میں لائے بغیر دوڑائے جا رہا تھا. وہ فوڈ سٹریٹ کی طرف تیزی سے بڑھ رہے تھے. مین سڑک پر گاڑیوں کے رش ہونے کی وجہ سے اس نے سوچا کہ میں دوسرے روڈ سے چلا جاتا ہوں. وہ روڈ ون وے تھا. صائم اسے کہتا رہا کہ یہاں سے مت جاؤ. ایک تو قانون کی خلاف ورزی ہے. اور دوسری بات اپنی جان کو بھی خطرہ میں ڈالنا ہوگا. مگر عاصم اپنے طور طریقوں کے مطابق مرضی چلاتا جا رہا تھا. اچانک راستے میں موڑ آگیا. موڑ مڑتے وقت بھی عاصم نے سپیڈ کم نہیں کی. ابھی وہ تیزی سے مڑ ہی رہا تھا کہ اچانک سامنے سے بھاری بھرکم سامان سے بھرا ہوا ٹرک ان کے سامنے آگیا. تیز رفتاری کی وجہ سے عاصم بائیک کا توازن برقرار نہیں رکھ سکا. نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دونوں بائیک سمیٹ سیدھے ٹرک سے جا کر ٹکرائے. صائم اس غیر متوقع حادثے کے لیے بالکل تیار نہ تھا. اسے عاصم کا خیال آیا تو اس نے جلدی سے عاصم کو سڑک کے کنارے کی طرف دھکا دے دیا. اسے دھکا دینے کے بعد صائم نے خود بھی جست لگائی. مگر وہ کامیاب نہ ہو سکا. اس کا دھڑ تو کنارے پر پہنچ گیا تھا. مگر اس کا سر ٹرک کے پچھلے حصے سے ٹکرا گیا. دائم کی نگاہوں میں اپنی فکرمند ماں اور پیاری بہنوں کے چہرے یکایک گھوم گئے. وہ جلدی سے دوڑ کر ان تک پہنچنا چاہتا تھا جو بے صبری سے اس کی واپسی کا انتطار کر رہے تھے. مگر یکایک اسے یوں محسوس ہوا. جیسے اس کا سر دو ٹکڑے ہو گیا ہو. خون کا ایک فوارہ اس کے سر سے چھوٹ رہا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھیں بے نور ہو گئیں اور وہ وہیں دم توڑ گیا. دوسری جانب عاصم کھلی آنکھوں سے یہ سب دیکھ رہا تھا. اس کے پیروں کے ساتھ ہی عاصم کا سر بے حس و حرکت پڑا تھا. وہ اٹھ کر صائم کے پاس جانا چاہتا تھا مگر وہ باوجود پوری قوت لگانے کے ایک قدم بھی ہلا نہ سکا. کیونکہ ٹرک نے نہ سر دیکھا نہ پیر. بس انہیں رگڑتا چلا گیا.

image3.png

DALL·E 3


An Irreparable Loss:

Asim woke up in a hospital, his eyes first falling on his father. "Where's Saim? Is he okay?" he asked urgently.

His father, Mr. Qasim, looked at him with sorrowful eyes. "Son, you left him beyond help. He's no more," he said, his voice heavy with grief.

Asim, confused, asked, "What do you mean?"

Taking a deep breath, Mr. Qasim explained that Saim had died on the spot. Asim couldn’t believe it at first and shook his father, demanding, "Where is Saim?"

Mr. Qasim, tears welling up, responded, "I told you countless times, but you never listened. Your reckless joyride has cost an innocent life. How will I face his mother? You've taken away her only support, a mother’s only son, a brother’s protective hand. All because of your thrill-seeking. If only you had listened, we wouldn’t be in this situation."

"Take me to him, Dad. I need to see him," Asim pleaded, tears streaming down his face as he realized the gravity of his actions.

"There's no point in going now. You'll only cause more pain. Besides, you can't even walk. Both your legs are paralyzed. If it weren't for Saim sacrificing his life, you would have been dead too," Mr. Qasim said bitterly.

The news hit Asim like a series of blows. He was paralyzed, his best friend gone because of his recklessness. He felt overwhelming shame and remorse for causing so much pain to his family and Saim's. Saim, who had been more than a friend, had saved his life at the cost of his own. Asim's heart ached as he recalled Saim’s warnings about safe driving, which he had foolishly ignored. Now, all he had left were tears and regret for his irreversible mistakes.


ناقابل تلافی نقصان:

عاصم نے آنکھیں کھلتے ہی خود کو ہسپتال میں پایا. اس کی نظر سب سے پہلے اپنے ابو پر گئی. انہیں سامنے پا کر اس نے فوراً ہی صائم کے بارے میں سوال کیا. ابو! صائم کہاں ہے؟ وہ ٹھیک تو ہے نا؟

قاسم صاحب نے تأسف بھری نگاہوں سے اسے دیکھا. اور کہنے لگے. بیٹا! تم نے اسے اس قابل چھوڑا ہی نہیں. وہ اپنے ابو کی یہ بات سن کر پریشان سا ہو گیا. اس نے نہ سمجھنے والے انداز میں پوچھا: کیا مطلب؟

قاسم صاحب نے ایک گہری سانس لی. اسے کچھ اندازہ تو ہوا کہ شاید صائم کی حالت بھی تشویشناک ہے. مگر اسے معلوم نہیں تھا کہ صائم تو عین موقع پر دم توڑ کر اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا تھا. اس کے ابو نے کافی دیر خاموش رہنے کے بعد بالآخر اٹکتے ہوئے الفاظ میں اس کے دوست کے دنیا سے چلے جانے کی اطلاع دی. اسے ایک پل کے لیے تو یقین ہی نہیں آیا. اس نے اپنے ابو کو جھنجھوڑ کر دوبارہ پوچھا کہ صائم کہاں ہے؟

اب قاسم صاحب کا صبر جواب دے چکا تھا. وہ روہانسے ہو کر بولے: دیکھو بیٹا! میں نے تمہیں ہزار دفعہ سمجھایا. مگر تم نے میری بات نہیں مانی. آج تمہارے شوق نے کسی معصوم کی جان لے لی. آج تم نے مجھے اپنے آپ سے بھی نظر ملانے کے قابل نہیں چھوڑا. بتاؤ! میں اس ماں کو کیا جواب دوں گا؟ کہ میرے بیٹے کی غلطی نے ان کا اکلوتا سہارا بھی چھین لیا ہے؟ بیٹا تم نے ان کا اکلوتا سہارا چھین لیا. تم نے ایک ماں سے اس کا بیٹا چھین لیا. بہنوں کے سروں پر سے ایک بھائی کا شفقت بھرا ہاتھ تم نے چھین لیا ہے. صرف اپنے شوق کے لیے. کاش کہ تم ہماری بات مان لیتے تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا.

ابو مجھے وہاں جانا ہے. مجھے لے جائیں یہاں سے. میں نے اپنے دوست کے پاس جانا ہے. اب عاصم کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو چکے تھے. اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا.

اب وہاں جا کر کیا کرو گے تم؟ تم ان کے زخموں کو مزید دہرا کر دو گے. اور بھلا کیسے اور کس منہ سے جاؤ گے تم ان کے پاس؟ تم اپنے دونوں پیروں سے زندگی بھر کے لیے معذور ہو چکے ہو. یہ تو صائم نے اپنی جان قربان کرکے تمہاری جان بچا لی ورنہ تمہاری اس غلطی کی سزا کے طور پر تمہیں بھی اس وقت ہم دفنا رہے ہوتے. عاصم کے ابو ناراض ہو کر بولے.

یہ خبر اس کے اوپر ایک کے بعد دوسری قیامت بن کر ٹوٹی تھی. وہ ساکت سا ہو کر رہ گیا تھا. اس کی وجہ سے آج اس کے ماں باپ پر کیا بیت رہی تھی، اسے شدت سے اس پر ندامت ہونے لگی. اور بھائی سے بھی بڑھ کر دوست جس نے بچپن سے اب تک اس کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا وہ جاتے جاتے بھی اس کی جان بچا گیا تھا اور خود موت کو گلے لگا گیا تھا. وہ ساری زندگی کے لیے اسے احسان مند کر گیا تھا. اسے اپنے آپ سے گھن آنے لگی کہ وہ اپنے شوق کے لیے کس قدر خود سر ہو گیا تھا. اور وہی شوق اس کے لیے موت بن گیا. اس کو اپنے کانوں صائم کی آواز گونجتی ہوئی سنائی دے رہی تھی کہ یار عاصم! بائیک آرام سے چلاؤ. ایسا نہ ہو کوئی حادثہ پیش آجائے. لیکن عاصم تب اپنی مستی میں مگن تھا اور اب اس کے پاس سوائے آنسوؤں اور پچھتاوے کے اور کچھ نہ تھا.

THE END!

Join Binance through THIS LINK for 10% off trading fees! Let's save together!

ٹریڈنگ فیس میں 10% چھوٹ کے لیے اس لنک کے ذریعے بائننس میں شامل ہوں! آئیے مل کر بچائیں!

H2
H3
H4
3 columns
2 columns
1 column
12 Comments