Passion or Death? | شوق یا موت؟ (Episode 1)

passion-or-death-ep-1.png

Image1, Image2 edited using Adobe Express


My blog today is especially for those young people who don't realize the value of their lives. They think nothing bad will happen, that youth is for enjoying life. But in this quest for nothing, everything happens, and later, all that remains is regret.

As soon as he heard the roaring engine, Mr. Qasim remarked, "Look, your son is back, riding the wind's horse." Mr. Qasim works at a private company and is a strict, principled father. He worked tirelessly to educate his son, Asim, so that he wouldn't have to depend on anyone in the future. However, Asim was always lost in his own mischiefs and returned home riding his fast bike today. Mr. Qasim disliked this habit intensely, so he began scolding Asim as soon as he arrived.

"Oh, come on! You always nag this poor boy. He's just a kid. This is the age to have fun and play around." This is Mrs. Kulsoom, Mr. Qasim's wife, and the doting mother of their only beloved son, Asim. She always sided with her son, trying to save him from his father's scolding.

Mr. Qasim responded immediately, "I don't nag for no reason. I worry about him, fearing that his recklessness might harm him or someone else. He can ride the bike carefully too. It's better to be cautious than regretful later, when no remedy works after the damage is done."


میری آج کی بلاگ بالخصوص ان نوجوانوں کے لیے ہے جنہیں اپنی جان کی قیمت کا اندازہ نہیں ہے. انہیں لگتا ہے کہ کچھ نہیں ہوتا، جوانی میں موج مستی تو ہونی چاہیے. اس کچھ نہیں ہوتا کے چکر میں بہت کچھ ہو جاتا ہے اور پھر بعد میں پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچتا.

انجن کی زوردار آواز سنتے ہی قاسم صاحب گویا ہوئے: لو جی آگئے آپ کے برخوردار، ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کر۔ یہ ہیں قاسم صاحب جو ایک نجی کمپنی میں کام کرتے ہیں. یہ اصول پسند باپ ہیں. انہوں نے دن رات محنت کر کے اپنے بیٹے کو پڑھایا لکھایا اور اس قابل بنایا کہ وہ کل کو کسی کا محتاج نا رہ پائے مگر ان کا بیٹا عاصم اپنی ہی خرمستیوں میں مگن رہتا تھا. آج بھی وہ تیز بائیک چلاتا ہوا گھر لوٹا تھا. قاسم صاحب کو اس کی یہ عادت بالکل بھی پسند نہیں تھی. چنانچہ وہ عاصم کے آتے ہی اسے کوسنا شروع ہو گئے.

کیا جی! آپ بھی ہر وقت اس بے چارے کے پیچھے ہی لگے رہتے ہیں. بچہ ہے. یہی تو عمر ہے کھیلنے کودنے کی. یہ ہیں کلثوم صاحبہ قاسم صاحب کی بیگم اور اپنے اکلوتے لاڈلے بیٹے عاصم کی ماں جو ہمیشہ اپنے بیٹے کی طرفدار کرکے اس کو باپ کی ڈانٹ سے بچانے کی فکر میں مبتلا رہتی ہیں.

قاسم صاحب فوراً بولے: میں یوں ہی پیچھے نہیں لگا رہتا. مجھے فکر ہوتی ہے اس کی کہ کہیں یہ اپنی حماقت اور لاپرواہی سے خود کا یا کسی اور کا نقصان نا کر بیٹھے. احتیاط سے بھی تو بائیک چلائی جا سکتی ہے نا. بعد میں پچھتانے سے بہتر ہے کہ پہلے احتیاط کر لی جائے ورنہ جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تو کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو پاتی.

image2.png

DALL·E 3


Madness:

"Mom! Mom!" Asim shouted as he entered the house. He rushed straight to the kitchen, eagerly asking, "Mom, what have you cooked today? I'm starving." Seeing him, his mother blessed him and kissed his forehead. She was always concerned about him, after all, he was their only pampered son. She took great care of his likes and dislikes and had cooked his favorite dish today.

"What? Pickled meat! Really? This will be delicious," Asim exclaimed, delighted upon hearing about his favorite dish. "Mom, I'll go freshen up. Please set the table quickly."

"Alright, dear, listen," she called lovingly. Asim, who was about to leave the kitchen, stopped and looked at her questioningly. "Yes, Mom? What is it?"

"Son, you know your father doesn't like you riding the bike fast. It's not that he has an issue with you; he worries about you. God forbid, if you meet with an accident, what will become of us? Why don't you ride the bike slowly? Even today, your father got angry hearing your bike's loud noise when you entered the house. How many times have I told you to ride slowly when he's home? At least don't do this in front of him."

"Oh, Mom! You're starting the bike lecture again," Asim snapped, irritated by his mother's advice. "Isn't it enough that Dad always scolds me? Now you too?"

Sensing the harshness in his tone, Mrs. Kulsoom tried to calm him down, "But son, we say all this for your own good. If you get hurt, it will hurt us more."

"Mom, don't you guys get tired of saying the same thing over and over again?" he retorted angrily, stomping off to his room and slamming the door behind him. Mr. Qasim, hearing the noise, held his head in frustration.


جنون:

امی! امی! عاصم زور زور سے چلاتا ہوا گھر میں داخل ہوا. اندر آتے ہی وہ سیدھا کچن کی طرف گیا اور بے تابی سے پوچھا: امی جان! آج آپ نے کھانے میں کیا پکایا ہے؟ مجھے تو بہت تیز بھوک لگ رہی ہے. اس کی ماں نے اسے دیکھتے ہی اسکی بلائیں لیں. اسکے ماتھے پر بوسہ دیا. انہیں اس کی ہمیشہ فکر رہتی تھی. آخر کو ان کا کلوتا لاڈلا بیٹا جو تھا. وہ اس کی پسند نا پسند کا بہت زیادہ خیال رکھتی تھیں. اور آج بھی انہوں نے عاصم کی پسند کا کھانا بنایا تھا.

کیا؟ اچار گوشت! واقعی! پھر تو بہت مزہ آئے گا. اپنی فیورٹ ڈش کا نام سن کر ہی عاصم خوشی سے نہال ہو گیا. امی! پھر تو میں ابھی فریش ہو کر آتا ہوں. بس آپ جلدی سے کھانا لگا دیں.

اچھا بیٹا سنو! انہوں نے اسے پیار سے پکارا. جو اپنے کمرے میں جانے کے لیے کچن سے نکل رہا تھا. ان کی آواز سن کر وہ رکا اور سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھنے لگا. جی امی! کہیں. کیا بات ہے؟

بیٹا تم جانتے ہو کہ تمہارے ابو کو تمہارا تیز رفتاری سے بائیک چلانا بالکل پسند نہیں ہے. ایسی بات نہیں ہے کہ انہیں تم سے کوئی مسئلہ ہے. بلکہ تمہاری فکر ہوتی ہے. خدانخواستہ کسی حادثے کا شکار ہو گئے تو ہم پر کیا گزرے گی؟ تم بائیک آہستہ کیوں نہیں چلاتے؟ ابھی بھی گھر میں داخل ہوتے وقت تمہارے ابو تمہاری بائیک کی اتنی تیز آواز سن کر غصہ کر رہے تھے. کتنی بار میں نے کہا ہے کہ جب وہ گھر پر ہوا کریں تو بائیک آہستہ چلا کر لیا کرو. کم از کم ان کے سامنے تو مت کرو نا ایسا.

اوہو امی! آپ پھر بائیک پر لیکچر دینا شروع ہو گئی ہیں. وہ اپنی ماں کے سمجھانے پر چڑ سا گیا. ابو کیا کم باتیں سناتے ہیں؟ جو اب آپ بھی مجھ پر برسنا شروع ہو گئی ہیں؟
کلثوم بیگم نے اس کے لہجے کی سختی بھانپتے ہوئے اس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی: پر بیٹا! ہم تو تمہاری بھلائی کے لیے یہ سب کہتے ہیں. اگر تمہیں کوئی چوٹ پہنچے گی تو تم سے زیادہ تکلیف ہمیں ہوگی.

امی آپ لوگ ایک بات کہتے کہتے تھک نہیں جاتے؟ وہ غصے میں پیر پٹختا ہوا اپنے کمرے کی اوڑ چلا گیا اور دروازے کو زور سے بند کیا جس کی آواز قاسم صاحب نے بھی سن لی تھی اور وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے.

image3.png

DALL·E 3


At the Dinner Table:

Soon, Mrs. Kulsoom set the table and called Asim for dinner. He came, sulking, to the table where Mr. Qasim was already seated. Everyone ate in silence until Mr. Qasim broke the quiet, starting his conversation.

"Listen, Asim. Mashallah, you are now a grown, sensible man. I'm not talking to a child who doesn't understand what's good or bad for him. You've completed your studies more than a year ago. Last year, you said you wanted to enjoy life, and on your mother's request, I didn't say anything. I silently accepted everything you did and said for the whole year. We gave you freedom, bought you a bike when you wanted it, and didn't force you to get a job. We fulfilled all your wishes. Now, morally, you should respect our words. Either start your own business or find a job. I know you need capital to start a business, which you don't have. You see my earnings, and I don't want you to live a life like mine. Every father wishes his son to live a better life than he did. So try to find a good job for now, save some money, and start a small business. It will make your future life easier. We won't be here forever. One day you'll get married, have kids, and it'll be your responsibility to provide them a good life and proper education. Don't end up like me, struggling in jobs. Your own business is always better."


کھانے کی میز پر:

کچھ ہی دیر میں کلثوم بیگم نے کھانا تیار کرکے میز پر سجا دیا اور پھر عاصم کو کھانے کے لیے بلانے گئیں. وہ منہ بسورتا ہوا کھانے کی میز پر آیا. قاسم صاحب پہلے سے میز پر موجود تھے. سب چپ چاپ خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے کہ اسی دوران قاسم صاحب نے سکوت کو توڑتے ہوئے اپنی بات شروع کی. دیکھو عاصم بیٹا! ماشاءاللّٰه تم اب بڑے اور سمجھدار آدمی بن چکے ہو. اب میرے سامنے کوئی چھوٹا بچہ نہیں بیٹھا ہوا کہ جسے اس کے فائدے اور نقصان کی باتیں مجھے سمجھانی پڑیں. تم اپنا نفع نقصان بہتر سمجھتے ہو. تمہاری پڑھائی کو مکمل ہوئے بھی ایک سالسے زائد عرصہ ہو چکا ہے. تم نے پچھلے سال کہا تھا کہ تم ابھی لائف انجوائے کرنا چاہتے ہو میں نے تمہاری ماں کے کہنے پر کچھ نہیں کہا، خاموش رہا اور تم نے پورے سال میں جو کچھ کیا اور کہا میں نے ہر بات مانی. تمہیں آزادی چاہیے تھی، ہم نے تمہیں آزادی دی. تمہیں بائیک چاہیے تھی ہم نے وہ بھی لے کر دی تمہیں. تم نے جاب کرنے سے منع کر دیا ہم نے اس پر بھی کچھ نہیں کہا کہ تم بعد میں خود کو سنبھال لو گے. اب ہم تمہاری ساری خواہشات پوری کر چکے ہیں. اب اخلاقی طور پر تو تمہیں چاہیے کہ ہماری بات کی عزت کرتے ہوئے یا تو اپنا کاروبار شروع کر دو یا پھر کوئی جاب ڈھونڈو. میں جانتا ہوں کہ اپنے ذاتی کاروبار کے لیے تمہیں سرمایہ چاہیے ہوگا جو کہ تمہارے پاس نہیں ہے. میں جتنا کماتا ہوں، وہ بھی تمہارے سامنے ہی ہے اور میں یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ تم بھی میری والی زندگی گزارو. ہر باپ کی یہی تمنا ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا اس سے بہتر زندگی گزارے. اس لیے کوشش کرو، فی الحال کوئی اچھی سی جاب تلاش کر لو اور جب کچھ پیسے جمع ہو جائیں تو اس سے اپنا ایک چھوٹا سا بزنس اسٹارٹ کر لینا، تاکہ تمہاری آگے کی زندگی آسان ہو جائے. ہمارا کیا ہے آج ہیں کل نہیں ہوں گے. اب کل کو تمہاری شادی ہوگی، بچے ہوں گے، ان کو ایک اچھی زندگی دینا، ان کی تعلیم و تربیت کا مناسب انتظام کرنا، یہ سب تمہاری ذمہ داری ہوگی. ایسا نہ ہو کہ تم بھی میری طرح نوکری کے چکر میں دھکے کھاتے رہو، اپنا کاروبار اپنا ہوتا ہے.

image4.png

DALL·E 3


On the Path to Death:

At first, Asim listened silently to his father's words, but soon his patience ran out. He got up to leave in the middle of the conversation. "Where are you going?" Mr. Qasim's tone showed his displeasure. "Didn't you hear me? I'm asking you something."

Asim turned back, his eyes red with anger. It seemed like he would vent all his frustration today, and he did. He shouted at his father, "I'm tired of hearing your lectures every day. Don't go here, don't go there, don't do this, don't do that. Don't go out late at night, and so on. And what freedom are you talking about? When I see other guys around me, they roam around until late at night, enjoying themselves, and here you are, always restricting me. What freedom did you give me? You gave me that junk bike after a year, and that too after so much pleading. My friends had bikes in college, while I had to take buses and rickshaws, and everyone mocked me, saying my parents still treat me like a kid. Even after getting the bike, you never left me alone. Neighbors make fun of me when you tell me to ride slowly in front of them, sit straight, wear a helmet. Am I a child? You treat me like one in front of everyone. I'm tired of all this."
"Son, I've always wanted the best for you," Mr. Qasim interrupted as Asim continued his rant. "If I'd given you a bike during college, you'd either be dead or bedridden with broken bones by now."

"Fine then. Keep your precious bike. You value it more. I don't need anything. Keep it to yourself." Asim threw the bike keys on the table and stormed out, not willing to listen anymore.

"Asim! Asim!" Mrs. Kulsoom called out, running after him. She had been sitting quietly and scared throughout the father-son argument because Asim always left after a fight, and she bore the brunt of it. Mr. Qasim would blame her, saying she spoiled him with her pampering, fulfilling his every wish. "See the result? You always take his side, now suffer." He would lash out at her, and today was no different.

"Stop!" Mr. Qasim shouted at his wife. "There's no need to go after him. Your son has forgotten all respect and manners."

"My son?" Mrs. Kulsoom couldn't stay silent this time. "He's as much your son as mine. It's your fault. You're always scolding him. Try talking gently sometimes. He's still a child, immature."

"A child?" Mr. Qasim's anger flared up. "How much more gently should I talk? Didn't you see his tone with his father? He needs a taste of the real world. Let him stay out for a few days, he'll come to his senses." Saying this, Mr. Qasim went to his room, and Mrs. Kulsoom sat down, praying for her son, "Oh God, guide him, Amen."

Her intuition had already warned her that something terrible was going to happen today. She feared her son might do something drastic in his anger. And as fate would have it, a tragedy occurred that changed everything. No one could have imagined what Asim would do. What drastic step did he take? You will find out in the next part.


موت کی راہ پر:

عاصم پہلے تو خاموشی سے اپنے ابو کی بات سنتا رہا، مگر اس سے زیادہ دیر صبر نہ ہو سکا اور ان کی بات کے درمیان ہی وہ اٹھ کر جانے لگا. کہاں جا رہے ہو؟ وہ بات سنے بغیر جانے لگا تو قاسم صاحب کو یہ بات شدید ناگوار گزری. انہوں نے اس کے اٹھ کر جانے کی اپنی توہین محسوس کی. پھر اس کی طرف سے جواب نا پاکر وہ مزید غصے میں گویا ہوئے: تم نے سنا نہیں؟ کیا پوچھ رہا ہوں میں؟

عاصم پیچھے مڑا تو اس کی آنکھیں غصہ کی وجہ سے سرخ ہو رہی ہیں. ایسا لگ رہا تھا کہ آج وہ اپنے دل کی ساری بھڑاس نکال کر رہے گا. ایسا ہی ہوا. وہ اپنے ابو پر زور سے چلا کر کہنے لگا: آپ لوگوں کا روز روز کا یہ لیکچر سن سن کر پک گیا ہوں میں. یہاں نہیں جاؤ. وہاں نہیں جاؤ. ایسا نا کرو. ویسا نا کرو. اتنی رات کو باہر مت نکلو، وغیرہ وغیرہ. اور کون سی آزادی کی بات کر رہے ہیں آپ؟ میں جب اپنے آس پاس کے لڑکوں کو دیکھتا ہوں تو وہ آدھی آدھی رات تک باہر گھومتے پھرتے ہیں، عیش کر رہے ہوتے ہیں اور ایک آپ ہیں جو ہر وقت روک ٹوک میں لگے رہتے ہیں. آپ نے جو کھٹارہ سی بائیک مجھے لا کر دی ہے، وہ بھی ایک سال پہلے ہی دلائی ہے اور وہ بھی اتنی منت سماجت کے بعد. ورنہ میرے سب دوستوں نے کالج لائف میں ہی بائیک لے لی تھی اور ایک میں تھا جو بسوں اور رکشوں کے دھکے کھاتا ہوا کالج اور یونیورسٹی پہنچتا تھا، اور سب میرا مزاق اڑاتے تھے کہ اس کے والدین اس کو ابھی بھی بچہ سمجھتے ہیں. بائیک دلانے کے بعد بھی آپ نے کب مجھے آزاد چھوڑا ہے؟ جب سے بائیک لی ہے، آس پاس کے پڑوسی تک میرا مزاق اڑاتے ہیں، جب آپ ان کے سامنے مجھے یہ کہتے ہیں کہ بائیک آہستہ چلاؤ. ایسے مت چلاؤ. ایسے مت بیٹھو. سیدھے بیٹھ کر بائیک چلاؤ. ہیلمٹ پہن کر بائیک چلاؤ. کیا میں چھوٹا بچہ ہوں؟ جو آپ مجھے سب کے سامنے ایک بچے کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں؟ میں اس سب سے بہت تھک چکا ہوں.

بیٹا! میں نے ہمیشہ تمہارا ہی بھلا چاہا ہے. قاسم صاحب اس کی بات کاٹ کر بولے جو مسلسل بد تمیزی کرتا چلا جا رہا تھا. جس طرح تم بائیک چلاتے ہو، اگر تمہیں کالج لائف میں بائیک دلا دی ہوتی تو تم کب کے اللہ کو پیارے ہو چکے ہوتے یا پھر دو چار ہڈیاں تڑوا کر گھر میں بستر پر پڑے ہوتے.

ٹھیک ہے پھر. آپ اپنی چہیتی بائیک کو اپنے پاس ہی رکھیں. آپ کو وہ زیادہ عزیز ہے. نہیں چاہیے مجھے کچھ بھی رکھیں اپنے پاس. وہ غصے میں بائیک کی چابی کو ٹیبل پر پٹختا ہوا باہر نکل گیا، کیونکہ وہ اب مزید کچھ سننے کے موڈ میں نہیں تھا.

عاصم بیٹا! عاصم بیٹا! کلثوم بیگم اس کے پیچھے آواز دیتی ہوئی اس کی طرف دوڑیں جو کہ کب سے باپ بیٹے کی لڑائی میں خاموش اور ڈری ہوئی بیٹھی تھیں، کیونکہ ہمیشہ لڑائی کے بعد عاصم باہر نکل جاتا تھا اور شامت ان کی آتی تھی. کیونکہ قاسم صاحب اس کے جانے کے بعد اپنی بیوی پر برستے تھے کہ تمہارے لاڈ پیار نے اس کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے. اور کرو اس کی خواہشات پوری. اس کے نخرے اٹھاؤ. دیکھ لیا نتیجہ؟ وہ جو کہتا ہے تم پوری کرنے چل پڑتی ہو. میں تو شروع سے ہی ان سب چیزوں کے خلاف تھا. اب بھگتو. آج بھی ان کی شامت آنے والی تھی.
رک جاؤ! قاسم صاحب اپنی بیوی پر چلائے. کوئی ضرورت نہیں ہے اس کے پیچھے جانے کی. عزت و احترام سب بھول گیا ہے تمہارا بیٹا.

میرا بیٹا؟ اس بار کلثوم بھی خاموش نا رہیں وہ جتنا میرا بیٹا ہے، اتنا آپ کا بھی ہے. یہ آپ کی غلطی ہے. آپ اس کو ہر وقت ڈانٹتے رہتے ہیں. کبھی تو نرمی سے بات کیا کریں. آخر کو وہ بچہ ہے، ناسمجھ ہے.

بچہ ہے وہ؟ قاسم صاحب کا بھی پارہ ہائی ہو چکا تھا. وہ زور سے چلاتے ہوئے کہنے لگے: اور کتنی نرمی سے بات کروں؟ تم نے دیکھا نہیں وہ کس لہجہ میں بات کر رہا تھا اپنے باپ سے؟ اس کو باہر کی دنیا کی ہوا لگ گئی ہے. دو چار دن باہر رہے گا، خود عقل ٹھکانے آجائے گی. یہ کہتے ہوئے قاسم صاحب اپنے روم میں چلے گئے اور کلثوم بیگم وہیں کرسی پر بیٹھ گئیں اور اپنے بیٹے کے لیے دعائیں کرنے لگیں. یا اللہ اسکو ہدایت عطاء فرما آمین.

ان کی چھٹی حس انہیں پہلے ہی خبردار کر رہی تھی کہ آج کوئی انہونی ہونے والی ہے. انہیں ڈر تھا کہ کہیں ان کا بیٹا غصے میں کوئی الٹا سیدھا اقدام نہ کر ڈالے. اور پھر خدشے کے عین مطابق ایسا ہی ہوا. ایک ایسا حادثہ جس نے سب کچھ بدل ڈالا. کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ ایسا کر گزرے گا؟ آخر عاصم نے ایسا کون سا قدم اٹھایا؟ اس کی تفصیل اگلے حصے میں آپ ملاحظہ فرمائیں گے.

Episode 2 (Final Episode) coming soon.

Join Binance through THIS LINK for 10% off trading fees! Let's save together!

ٹریڈنگ فیس میں 10% چھوٹ کے لیے اس لنک کے ذریعے بائننس میں شامل ہوں! آئیے مل کر بچائیں!

H2
H3
H4
3 columns
2 columns
1 column
21 Comments