Independence Day Special: Pride of Pakistan | یوم آزادی کی خاص پیشکش: فخرِ پاکستان

image1.png

Source, Image used under section 107 of the Copyright Act 1976


The global Olympics held in Paris have come to an end, with thousands of athletes showcasing their talents on an international stage and receiving global recognition. In the early days of the event, there was significant criticism regarding the management of the Olympics. Many compared it to the previous year's event in Qatar, which was hailed as a display of exceptional management. However, as the competition progressed, new talents emerged, and the criticism gradually faded, replaced by applause as the Olympics concluded. While athletes from the United States and China dominated, collecting gold medals, there was also a hardworking young man from a developing country, a poor youth who risked everything for the hope of making his country proud on the leaderboard. He devoted his days and nights to achieving this dream, but his financial situation remained a constant obstacle. Nevertheless, he persisted, and through mutual support, he finally made it to the Paris Olympics to represent his country, Pakistan.


پیرس میں منعقد ہونے والا عالمی اولمپکس اپنے اختتام کو پہنچا. جس میں بلا مبالغہ ہزاروں ایتھلیٹس نے اپنی مہارتوں کے جوہر دکھا کر عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کی. اس اولمپکس کے انعقاد کے اولین دنوں میں اس کے انتظامات پر بہت تنقید کی گئی. کہا یہ جا رہا تھا کہ گزشتہ سال قطر میں ہونے والا اولمپکس کا مقابلہ بہترین مینجمنٹ کا عالمی مظاہرہ تھا. لیکن جوں جوں یہ مقابلہ اختتام کو پہنچ رہا تھا، نئی نئی شخصیات کے ٹیلنٹ سامنے آ رہے تھے اور رفتہ رفتہ وہ تنقید کہیں دب کر رہ گئی اور تالیوں کی گونج کے ساتھ یہ اولمپکس اپنے اختتام کو پہنچا. سر فہرست تو امریکہ اور چین کے کھلاڑی رہے، جو گولڈ میڈلز جمع کرنے کی دوڑ میں پیش پیش تھے. البتہ اسی دوڑ میں ذرا سا نیچے جا کر ایک ترقی پذیر ملک کا وہ غریب محنتی نوجوان بھی تھا، جو اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر داؤ کھیلنے گیا تھا. اس امید پر کہ وہ اپنے ملک کا نام لیڈر بورڈ میں درج کروائے گا. اپنے اس شوق اور خواب کی تکمیل کے لیے اس نے دن رات ایک کر دیے، مگر اس کے معاشی حالات اس کے خواب کی تکمیل میں رکاوٹ بنے رہے. لیکن وہ بغیر رکے محنت کرتا رہا اور کسی نہ کسی طرح امداد باہمی کے تحت بالآخر اپنے ملک پاکستان کی نمائندگی کے لیے پیرس اولمپکس میں پہنچ گیا.

image2.png

Source, Image used under section 107 of the Copyright Act 1976


Arshad Nadeem:

Yes, I am referring to the pride of Pakistan, Mr. Arshad Nadeem, the gold medalist in javelin throw at the 2024 World Olympics. Arshad Nadeem was born in 1997 in a small village, Chak 101, in the tehsil of Mian Channu, Punjab, Pakistan. From a young age, he was passionate about sports and, like many Pakistanis, initially gravitated towards cricket. He played cricket for a long time but later, at his father's suggestion, decided to become an athlete, never looking back. His passion was clear, but when it came to representing Pakistan on an international level, Arshad faced numerous challenges. In a country where the culture of healthy sports is lacking and sports equipment is prohibitively expensive, practicing javelin throw became increasingly difficult for him. However, he continued to move forward without losing hope. It is said that as recently as January of this year, he didn’t even have enough money to buy a javelin. His relatives stepped in to help, allowing him to prepare for the Olympics. Unfortunately, the Pakistani Sports Board showed little interest in supporting him, or any other athlete, in representing Pakistan at international competitions.


ارشد ندیم:

جی. ہاں. میری مراد فخرِ پاکستان، عالمی اولمپکس 2024 میں جیویلین تھرو کے گولڈ میڈلسٹ، جناب ارشد ندیم ہیں. ارشد ندیم پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ایک چھوٹی سی تحصیل میاں چنوں کے ایک چھوٹے سے گاؤں چک 101 میں سن 1997 میں پیدا ہوئے. بچپن ہی سے کھیلوں میں حصہ لینے کا شوق تھا. سو پاکستانی عوامی رجحان کے مطابق وہ کرکٹ کا حصہ بنے. انہوں نے کافی عرصہ کرکٹ کھیلی. پھر اپنے والد کے کہنے پر ایتھلیٹ بننے کا فیصلہ کر لیا اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھا. انفرادی شوق تک تو بات ٹھیک تھی، مگر جب بات آئی عالمی مقابلوں میں نمائندگی کرنے کی، تو ارشد ندیم کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا. ملک پاکستان میں جہاں صحت مند کھیلوں کے رواج کا فقدان ہے، وہیں پر ساتھ ہی کھیل کا سامان انتہائی مہنگا ہے. ارشد ندیم کے لیے ایسے موقع پر نیزہ بازی کی مشق کرنا مشکل ہوتا چلا جا گیا. مگر وہ ہمت ہارے بغیر اپنے مقصد کی جانب قدم بڑھاتے رہے. حتیٰ کہ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ اسی سال جنوری کے مہینے میں ان کے پاس ایک نیزہ خریدنے کی رقم نہ تھی. چنانچہ ان کے رشتہ داروں نے ان کے ساتھ تعاون کیا اور انہیں اولمپکس کی تیاری کا موقع ملا. افسوس کے ساتھ پاکستانی سپورٹس بورڈ کی جانب سے ان کے جانے میں کسی قدر دلچسپی نہیں دکھائی گئی. صرف ارشد ندیم ہی کیا، کسی اور ایتھلیٹ کو بھی پاکستان سے عالمی مقابلوں میں نمائندگی کے لیے بھیجنے پر سپورٹس بورڈ کی دلچسپی دیکھنے میں نہیں آئی.

image3.png

Source, Image used under section 107 of the Copyright Act 1976


A Historic Day in Olympic History:

Finally, Arshad Nadeem's relentless efforts paid off, and on the night of August 8, he broke the 118-year-old Olympic record with a 92.7-meter javelin throw, winning the gold medal for Pakistan. This was a moment of immense joy for every Pakistani. After a long time, Pakistanis forgot their troubles, even if just for a few moments, and this was Arshad Nadeem's true achievement. As soon as the news of his victory reached Pakistan, announcements of rewards worth millions began pouring in. The Punjab government announced a reward of 100 million rupees, and the Sindh government offered 50 million rupees. World Athletics announced a reward of 50,000 dollars. Toyota gifted him a Corolla Cross Hybrid Electric car, along with other rewards such as an Alto car, a golden crown, free petrol, free gas, and Umrah tickets for his entire family. Moreover, the President of Pakistan announced the prestigious Hilal-e-Imtiaz award for Arshad Nadeem, and a special postage stamp featuring his image was released on August 14 in honor of Independence Day. It is truly said that failure is an orphan, but success has many fathers.


اولمپکس کی تاریخ میں یادگار دن:

آخر کار ارشد ندیم کی دن رات کی محنت رنگ لے آئی اور انہوں نے 8 اگست کی شب 92.7 میٹر طویل جویلین تھرو کر کے اولمپک کا 118 سالہ ریکارڈ توڑ دیا اور پاکستان کے لیے گولڈ میڈل جیت لیا. یہ لمحات ہر پاکستانی کے لیے بہت خوشی کے لمحات تھے. عرصہ دراز بعد پاکستانی کچھ لمحات کے لیے اپنے سارے دکھ درد بھول گئے. یہی ارشد ندیم کی کامیابی تھی. جونہی ارشد ندیم کے گولڈ میڈل جیتنے کی خبر پاکستان پہنچی تو دھڑا دھڑ ارشد ندیم کے لیے لاکھوں اور کروڑوں کے انعامات کے اعلانات ہونے لگے. حکومت پنجاب نے 10 کروڑ اور حکومت سندھ نے 5 کروڑ روپیہ کے انعام کا اعلان کیا. 50 ہزار ڈالر ورلڈ ایتھیلیٹس کی جانب سے انعام کا اعلان کیا گیا. ٹویوٹا کی جانب سے کرولا کراس ہائبرڈ الیکٹرک کار کا تحفہ، آلٹو کار، سونے کا تاج، مفت پیٹرول، گیس فری، اہل خانہ سمیت عمرہ کا ٹکٹ اور نہ جانے کیا کچھ ہے جو ان پر نچھاور کیا جا رہا ہے. بلکہ سب سے بڑھ کر صدر پاکستان نے ارشد ندیم کے لیے سول ایوارڈ ہلال امتیاز دینے کا اعلان بھی کیا ہے، جبکہ 14 اگست کو جشن آزادی کی مناسبت سے ان کی خصوصی تصویر والا عزم استحکام ڈاکٹ ٹکٹ پہلے ہی جاری کیا جاچکا ہے. سچ کہتے ہیں: ناکامی یتیم ہوتی ہے اور کامیابی کے کئی باپ ہوتے ہیں.

image4.png

Source, Image used under section 107 of the Copyright Act 1976


Determination and Faith:

Arshad Nadeem's success has given new courage and inspiration to athletes in Pakistan. His achievement has reignited the spirit in those who had given up due to various challenges. Despite receiving offers from several foreign teams, Arshad Nadeem has always prioritized Pakistan, playing and winning for his country. He is a living example for aspiring athletes, teaching us about struggle, determination, enthusiasm, hard work, patience, endurance, and how to handle pressure. Above all, his humble and kind nature sets him apart. Despite his immense success, there is no trace of arrogance or pride in him. He returned the same way he left, spreading and receiving love. Without a doubt, he is a role model, maintaining not only his physical strength but also his spiritual connection with God, as evident when he offered a prayer of gratitude immediately after winning the gold medal. Even upon his return to Pakistan, he visited religious scholars and elders for their blessings before going home. In a time of despair, Arshad Nadeem has emerged as a beacon of hope, inspiring the youth of Pakistan to follow in his footsteps and strive for greatness.


عزم اور توکل:

ارشد ندیم کی کامیابی سے پاکستان میں ایتھیلیٹس کو ایک نیا عزم اور ہمت ملے گی. وہ لوگ جو بہت سی مشکلات کو دیکھ کر ہمت ہار گئے تھے، ارشد ندیم کی کامیابی نے ان میں ایک نئی روح پھونک دی ہے. ارشد ندیم کو کئی غیر ملکی ٹیمز کی جانب سے کھیلنے کی آفرز آئیں. مگر انہوں نے ہمیشہ پاکستان کو پہلے نمبر پر رکھا. اپنے ملک کے لیے کھلے اور جیتے. کھیل کے میدانوں میں ابھرتے ہوئے نوجوانوں کے لیے وہ ایک زندہ مثال ہیں. ان کی داستان سے ہمیں جدوجہد، عزم، ولولہ، انتھک محنت، مشقت، صبر و تحمل، برداشت اور پریشر کا سامنا کیسے کرنا ہے؟ سب سیکھنے کو ملتا ہے. سب سے بڑھ کر ارشد ندیم کا ملنسارانہ رویہ انہیں سب سے ممتاز کرتا ہے. اتنی بڑی کامیابی کے بعد بھی ذرہ بھی ان کے چہرے پر تکبر، غرور، نخوت یا بڑے پن کی کوئی جھلک نظر نہیں آئی. وہ جیسے گئے تھے، اسی انداز میں محبتیں بانٹ کر محبتیں سمیٹنے واپس آئے. بلاشبہ وہ ایک مثالی کردار ہیں. جو نہ صرف جسمانی طور پر خود کو مضبوط رکھے ہوئے ہیں بلکہ روحانی طور پر بھی اپنے رب سے بہت قریب ہیں، جس کی واضح مثال ان کا گولڈ میڈل جیتتے ہی سجدہ شکر بجا لانا تھا. پاکستان پہنچنے پر بھی وہ اپنے گھر جانے سے پہلے علماء کرام اور بزرگوں کی دعائیں لینے پہنچے. مایوسیوں کے دور میں ارشد ندیم امید کی کرن بن کر ابھرے ہیں. امید ہے پاکستان کے سبھی نوجوان ان کو دیکھتے ہوئے کچھ کر دکھانے کا عزم کریں گے اور کر دکھائیں گے.

Join Binance through THIS LINK for 10% off trading fees! Let's save together!

ٹریڈنگ فیس میں 10% چھوٹ کے لیے اس لنک کے ذریعے بائننس میں شامل ہوں! آئیے مل کر بچائیں!

H2
H3
H4
3 columns
2 columns
1 column
Join the conversation now