-ساجد جاوید ساجد

تازہ غزل احباب کی نذر


مری لحد پہ بھی آیا نہیں کرو گے تم
مجھے خبر ہے کہ ایسا نہیں کرو گے تم


اسی طرح سے جو احساس مرتا جائے گا
ہجوم دیکھ کے ٹھہرا نہیں کرو گے تم


بدل گیا ہے رویہ تمہارا ایسے کیوں
خدا کی بات بھی سمجھا نہیں کرو گے تم


سنا ہے مرنے کا پھر آج کل ارادہ ہے
مرے رقیب یہ اچھا نہیں کرو گے تم


ہوس پرستی سے پیچھا چھڑا لیا تم نے
سو اپنے جسم کو میلا نہیں کرو گے تم


لگن حضور کے در سے جو ہو گئی ساجد
کسی فقیر کو چلتا نہیں کرو گے تم


سوال کرتے ہوئے غور کر لیا ہوتا
تُو خود ہے دریا تری پیاس مَیں بجھاؤں کیا

ساجد جاوید ساجد

ساجد جاوید ساجد

H2
H3
H4
3 columns
2 columns
1 column
Join the conversation now