Beyond the Abaya | عبایا کے اُس پار

Note: For better reading and visual experience, Please visit this from beta.peakd.com
>>Click HERE!

نوٹ: بہتر پڑھنے اور بصری تجربے کے لیے، براہ کرم اسے beta.peakd.com سے دیکھیں
>>یہاں کلک کریں!

Or copy and paste this link in your browser:
@dlmmqb/beyond-the-abaya-or-abaya-k-aus-par

OIG2 (1).jpg

Source


In the black abaya, she resembled nothing short of a princess, with her gaze lowered, engrossed in reading her book. She was Sophia, a pious and virtuous girl from a Sayyed family, whom everyone admired and praised.

"Baba, which university will you send me to?" Sophia, sitting proudly with her arms around her father's chest, was inquiring.

"My daughter will attend the largest Islamic university in the city and obtain a degree in Islamic law from there" Sophia's father, Hadi Sahib, said, affectionately running his hand through her hair.

"But Baba, I want to study computer science, I want to study cyber security, I don't want to go there, I don't want to study that," Sofia spoke, distancing herself from her father as she expressed her thoughts.

"Sophia, you have been told before that you will pursue the path we have chosen for you. Girls from respectable families like ours do not engage in coeducation or study such subjects," Hadi Sahib rose from his seat and stormed out of the room in anger. Sofia remained seated, pondering her father's stern words.

کالے عبایا میں چھپی وہ کسی شہزادی سے کم نہیں تھی، جو نظریں جھکائے اپنی کتاب پڑھ رہی تھی۔ وہ صوفیہ تھی، ایک سید گھرانے کی باپردہ اور باخلاق لڑکی، جس کو ہر شخص پسند کرتا تھا، اس کی تعریف کرتا تھا۔

والد صاحب آپ مجھے کس یونیورسٹی میں بھیجیں گے؟ صوفیہ بڑے ناز سے اپنے باپ کے سینے لگی ان سے پوچھ رہی تھی۔

میری بیٹی شہر کی سب سے بڑی اسلامک یونیورسٹی جائے گی اور وہاں سے شریعتی فقہ کی ڈگری حاصل کرے گی صوفیہ کے باپ، ہادی صاحب نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

مگر والد صاحب مجھے کمپیوٹر پڑھنا ہے، سائبر سیکیورٹی پڑھنی ہے، بابا مجھے وہاں نہیں جانا، وہ نہیں پڑھنا صوفیہ اپنے باپ سے الگ ہو کر بول رہی تھی۔

صوفیہ تمہیں پہلے بھی بتایا گیا ہے تم وہی پڑھو گی جو ہم نے تمہارے لئے چنا ہے، اچھے گھرانے کی لڑکیاں ایسے ماحول میں نہیں پڑھتی۔ ہادی صاحب اپنی جگہ سے اٹھے اور غصے سے کمرے سے نکل گئے، صوفیہ وہیں بیٹھی اپنے باپ کے دو ٹوک لہجے کو سوچتی رہ گئی۔


OIG3.jpg

Source


On the other hand, Sadiya was traveling on a bus, wearing a small shirt paired with a neck scarf. Feeling uncomfortable under the scrutiny of people's stares, she finally decided to alight from the bus.

"Why do you seem so exhausted, Sadiya?" Sadiya's mother, Fatima Begum, noticed her fatigue as she entered.

"Mom, it's nothing. I just felt like taking a walk, so I decided to walk home." Sadiya spoke tiredly and then layed down on the sofa.

"Alright, your father was inquiring which university you would like to attend," Fatima Begum asked, sitting beside her with great affection.

"I haven't given it much thought yet, but but I wish to study Islamic law at an Islamic university. It's not appropriate to say anything right now; I'll think about it further," Sadiya replied while texting on her mobile phone.

"When did you develop an interest in Islamic law? You can choose any other good field. Because you may not fit in that environment. You can also go to another university where you can adjust better," Fatima Begum said thoughtfully.

"Mom, do you want to teach me according to your preferences or do you want me to choose something that troubles me? And I may not even be able to study it," Sadiya asked, shifting her gaze from her phone to her mother.

"What does it matter to me? It's your life, do as you wish. Tell me what you want to study, and I'll prepare something to eat," Fatima Begum said, rising in surprise and heading towards the kitchen.

"I'll have noodles. I don't want to eat what you've cooked," Sadiya insisted, glancing at her phone again.

And Fatima Begum continued to nod in agreement.


جبکہ دوسری طرف سعدیہ ایک چھوٹی سی قمیض پر اسکاف اوڑے بس میں سفر کر رہی تھی۔ لوگوں کی نظروں کو خود پر دیکھ کر وہ بے آرام محسوس کر رہی تھی اس نے بالاخر تنگ ا کر بس سے اتر جانے کا فیصلہ کیا۔

بیٹا تم اتنی تھکی ہوئی کیوں لگ رہی ہو؟ سعدیہ کی امی فاطمہ بیگم نے بہوجل قدموں سے اندر آتے دیکھا تو پوچھے بغیر نہ رہ سکیں۔

امی کچھ نہیں بس آج واک کرنے کا دل تھا تو میں پیدل گھر آگئی سعدیہ نے تھکے ہوئے انداز میں بولا اور صوفے پر لیٹ گئی۔

اچھا ٹھیک ہے، تمہارے ابا پوچھ رہے تھے تم نے کون سی یونیورسٹی جانا ہے فاطمہ بیگم نے اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بہت پیار سے پوچھا۔

امی میں نے ابھی اس بارے میں کچھ نہیں سوچا ہے پر میرا دل چاہتا ہے میں شریعتی فقہ پڑھوں اسلامک یونیورسٹی سے پر ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے اور میں اس پر مزید سوچوں گی سعدیہ اپنے موبائل پر نظریں جمائے بول رہی تھی۔

سعدیہ تمہیں شریعتی فقہ کا شوق کب ہوگیا تم کوئی بھی اچھی فیلڈ چن سکتی ہو، کیونکہ تم اس ماحول میں نہیں ڈھل سکتی۔ تم کسی اور یونیورسٹی میں بھی جا سکتی ہو، جہاں تم زیادہ بہتر ایڈجسٹ کر سکو۔ فاطمہ بیگم نے فکرمندی سے کہا۔

امی آپ مجھے میری پسند سے پڑھانا چاہتی ہیں یا نہیں چاہتی ہیں۔ میں کچھ ایسا چنوں جو مجھے پریشانی دے؟ اور میں اُسکو پڑھ بھی نہ سکوں سعدیہ نے ایک دم فون سے نظریں ہٹا کر اپنی ماں کو دیکھا۔

مجھے کیا ہے جو مرضی کرو تمہاری زندگی ہے، تم نے پڑھنا ہے بتاؤ کچھ کھاؤ گی، کھانا تیار ہے وہ حیرانگی سے اٹھی اور کچن کی طرف چل دیں۔

میں نوڈلز کھاؤں گی یہ جو آپ نے پکایا ہے وہ مجھے نہیں کھانا ہے۔ سعدیہ نے دوبارہ فون دیکھتے ہوئے نخرے سے بولا۔
اور فاطمہ بیگم ہاں ہاں کرتے چل پڑیں۔

OIG1.jpg

Source


"I've arranged your admission to the university, and your classes will begin next week. Get yourself prepared. Saddi will drop you off," Hadi Sahib announced, dropping a bomb on Sofia's head while she worked in the kitchen.

"Which university, Dad?" she asked in a trembling voice.

"Degree of Shariat Fiqh of Islamic University" He told Sofia while taking a glass of water.

"Father..." Sadiya wanted to say something to Father, but sensing Hadi Sahib's gaze upon her, she remained silent.

"Be ready next Monday," he told her as he drank a glass of water in a single breath

"Father, why will Saadi drop me? I can go by myself too," Sophia had once again questioned, drawing her father's attention towards herself.

"Do you have any problem going with Saadi? I've talked to him, and he will drop you off," Hadi Sahib left the kitchen without waiting to hear more from her.


تمہارا یونیورسٹی میں داخلہ کروا آیا ہوں اور اگلے ہفتے سے تمہاری کلاسیں شروع ہیں، اپنی تیاری کرلو۔ صادی تمہیں چھوڑ آیا کرے گا ہادی صاحب نے کِچن میں کام کرتی ہوئی صوفیہ کے سر پر بم پھوڑ دیا۔

والد صاحب کونسی یونیورسٹی میں؟ اُس نے کانپتے ہوئے لہجے میں پوچھا۔

اسلامک یونیورسٹی کی شریعتی فقہ کی ڈگری میں انہوں نے پانی کا گلاس لیتے ہوئے اُسے بتایا۔

والد صاحب پر وہ کچھ کہنا چاہتی تھی مگر ہادی صاحب کی خونریز نگاہوں کو دیکھتے ہی وہ سہمی۔

اگلے منڈے تیار رہنا ہادی صاحب اب پانی ایک ہی سانس میں پی رہے تھے۔

والد صاحب، صادی بھائی مجھے کیوں چھوڑ کر آئیں گے میں خود بھی تو جا سکتی ہوں صوفیہ نے ایک بار پھر سوال کر کے والد صاحب کو خود کی طرف متوجہ کر لیا تھا۔

تمہیں صادی کے ساتھ جانے میں کوئی مسئلہ ہے؟ میں نے اُس سے کہ دیا ہے اور وہ تمہیں چھوڑ کر آیا کرے گا، وہ اُس کی مزید بات سنے بغیر کِچن سے چلے گئے۔

OIG1 (1).jpg

Source


"Hello, dear father. You don't miss me; you've returned home after a whole month," Sadiya had said, sitting near her father on the sofa, speaking in a stubborn tone.

"Yes, indeed, I work just for my princess daughter. If my daughter says, I won't leave now," Sadiya's father said in a joking manner and turned on the TV.

"Yes, don't go, please. I've always told you before, stay with us," Sadiya said now, facing him, as she picked up a fruit from the tray in front of her and began to eat.

"Absolutely, listen to her, you should. Let her have her way; If she can manage it, she should become an officer over us," Fatima Begum had spoken in an frustrated tone.

"Sadiya, have you decided about university admission?" Sadiya's father asked her while watching TV.

"I've already enrolled. My classes begin next Monday," Sadiya informed her parents in a straightforward manner.

Fatima Begum exclaimed in surprise, "Where have you enrolled?" and Sadiya's father also turned to look at her.

"You yourself once said, 'Study wherever you want, it's up to you.' So, I decided to pursue a degree in Islamic Law at the Islamic University. I don't know what it is that keeps drawing me towards this degree again and again. Perhaps it's a sign from Allah," Sadiya addressed her parents, now wiping her hands with the sofa cover.

"Dear, it's your choice. But don't later complain that this isn't my cup of tea or that this university is too far from our home," Sadiya's father had resumed watching TV after returning to the sofa.

"Don't worry, Dad. Allah is the best caretaker," Sadiya reassured as she picked up her bag and walked towards her room.


السلام علیکم میرے عزیز والد صاحب، آپکو میری یاد نہیں آتی، آپ پورے مہینے بعد گھر واپس آئے ہیں۔ سعدیہ آکر اپنے والد کے قریب سوفے پر بیٹھتے ہوئے نخرے سے بولی۔

ہاں تو میں اپنی شہزادی بیٹی کے لیے ہی کام کرتا ہوں، اگر میری بیٹی کہے تو میں اب جاتا ہی نہیں ہوں سعدیہ کے والد صاحب نے مذاق کے انداز میں اسے بتایا اور ٹی وی آن کرنے لگے۔

ہاں تو نہ جائیں نا، میں تو پہلے بھی کہتی ہوں آپ ہمارے پاس رہا کریں۔ سعدیہ نے اب سامنے پڑی ٹوکری سے ایک پھل اُٹھا کر اُسکو کھانا شروع کر دیا۔

بالکل اس کی بات مانا کریں آپ، اسکا بس چلے نا ہم دونوں کے اوپر آفسر لگ جائے فاطمہ بیگم جلے ہوئے لہجے میں بولی۔

سعدیہ تم نے یونیورسٹی میں ایڈمیشن کا کیا سوچا ہے؟ سعدیہ کے والد صاحب ٹی وی دیکھتے دیکھتے اسے پوچھا۔

ایڈمیشن؟ وہ تو میں نے لے لیا، اگلے منڈے سے میری کلاسیں ہیں۔ سعدیہ نے سادہ سے لہجے میں اپنے والدین کو آگاہ کیا۔

فاطمہ بیگم نے چونک کر پوچھا، تم نے کہاں ایڈمیشن لیا ہے؟ اور سعدیہ کے والد بھی اُسے دیکھنے لگے۔

آپ نے خود ہی بولا تھا جہاں مرضی لے لو کون سا ہم نے پڑھنا ہے، پھر میں نے اسلامی یونیورسٹی میں ہی شریعتی فقہ کی ڈگری میں لے لیا، پتہ نہیں کیا بات ہے جو میرا دل بار بار اسی ڈگری کے پیچھے بھاگتا ہے، شاید اللہ تعالی کا کوئی اشارہ ہے۔ سعدیہ اپنے ہاتھ صوفے کے کور کے ساتھ صاف کرتے ہوئے اپنے والدین کی طرف مخاطب ہوئی۔

بیٹا، تمہاری مرضی ہے۔ مگر بعد میں یہ نہ کہنا کہ یہ میرے ٹائپ کی چیز نہیں ہے یا یہ یونیورسٹی ہمارے گھر سے دور ہے۔ سعدیہ کے والد واپس صوفے سے ٹیک لگائے ٹی وی دیکھنے لگے۔

والد صاحب آپ فکر نہ کریں اللہ تعالی بہتر مالک ہے۔ وہ اپنا بیگ اٹھائے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔

OIG4.jpg

Source


Sadiya dressed in a lovely pink short frock and tight jeans. After saying goodbye to Fatima Begum, she left home for the university.


سعدیہ نے ایک خوبصورت پنک رنگ کی شارٹ فراک پہنی اور ساتھ میں ٹائٹس پہنی۔ وہ اپنی والدہ کو خدا حافظ کہہ کر یونیورسٹی کے لیے گھر سے نکلی۔



Sophia, on the other hand, was dressed in a modest attire, wearing an abaya over it and also veiling herself.


اور دوسری طرف، صوفیہ سادہ سا جوڑا پہنے تیار ہوئی جس کے اوپر اس نے عبایا پہنا اور نقاب کیا۔



Sadiya left her home and arrived at a corner of the street. There, she took out an abaya from her bag and put it on. After walking a few steps, she began to wait at the bus stop for the bus to arrive.


سعدیہ اپنے گھر سے نکل کر سڑک کے ایک کنارے پہنچی۔ جہاں پر اس نے اپنے بیگ سے ایک عبایا نکال کر پہنا۔ چند قدم چلنے کے بعد اب وہ بس سٹاپ پر بس کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔



Sofia stood near the door of her house, waiting, while Sadiya gestured for her to come inside from her car.


صوفیہ اپنے گھر کے دروازے کے قریب انتظار کرنے لگی، جب صادی اپنی گاڑی میں بیٹھا اس نے اندر آنے کا اشارہ کیا۔

OIG3.CnA5VB.r3cgdz.jpg

Source


"My name is Ayesha," Ayesha stood in simple attire with a hijab neatly wrapped around her head, stood before Sadiya, displaying excitement.

"My name is Sadiya," Sadiya responded with a smile, returning Ayesha's greeting cheerfully.

"How delightful this university is," Ayesha commented as they walked together, now starting to converse with Sadiya.

"Yes, this is the biggest university here. You seem new here. Which city are you from?" Sadiya inquired Ayesha, glancing at her mobile phone.

"I'm from Lahore. My parents embraced Islam just a few months ago. They wanted me to study Islamic law and learn more about Islam," Ayesha replied, wearing the same smile on her face.

"Oh, that's wonderful! I'm happy your parents embraced Islam and sent you here. There are numerous students here with solid religious backgrounds. You'll surely learn a lot from them," Sadiya remarked as she settled herself in front of the washroom mirror.

"Yes, absolutely! That's precisely why I'm here, to learn new things from people," Ayesha affirmed as she watched Sadiya unveiling her hijab.

"Let's go, I'll assist you in finding friends with a strong religious background so that they can teach you too," Sadiya said as she began to put her abaya back into her bag.

"Thank you," Ayesha expressed, quite astonished witnessing Sadiya's action, unable to resist asking. "Why did you remove your abaya? It looked so lovely..."

"I don't like abaya, I'm forced to wear them," Sadiya responded, cutting off the question before it could finish.


میرا نام عائشہ ہے، عائشہ سادہ سے لباس میں سر پر حجاب لپیٹ کر پر جوش انداز میں صادیہ کے سامنے کھڑے اسے بتایا۔

میرا نام صادیہ ہے صادیہ بھی مسکراتے ہوئے عائشہ کا جواب دیا۔

یہ یونیورسٹی کتنی پیاری ہے عائشہ صادیہ کے ساتھ چلتے چلتے، اب اُس سے باتیں کرنے لگی۔

ہاں، یہ یہاں کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے، تم یہاں کی نئی لگتی ہو، کون سے شہر سے آئی ہو صادیہ اپنے موبائل کو دیکھتی ہوئی عائشہ سے سوال کرنے لگی۔

میں لاہور سے آئی ہوں، میرے والدین نے کچھ مہینے پہلے ہی اسلام قبول کیا ہے، اب وہ چاہتے ہیں میں شریعتی فقہ پڑھوں اور اسلام کو زیادہ جان سکوں۔ عائشہ نے چہرے پر وہی مسکراہٹ سجا کر جواب دیا۔

اوہ اچھا، میں خوش ہوں کہ تمہارے والدین نے اسلام قبول کیا اور تمہیں یہاں بھیجا، یہاں بہت سے طلباء ہیں جو بہت مضبوط مذہبی بیک گراؤنڈ رکھتے ہیں، تم ان سے ضرور کچھ سیکھو گی۔ سعدیہ نے یونیورسٹی واش روم کے شیشے میں خود کو سیٹ کرتے ہوئے کہا۔

ہاں بالکل، اسی لئے میں یہاں آئی ہوں تاکہ میں لوگوں سے نئی چیزیں سیکھوں۔ عائشہ اب صادیہ کو دیکھا جو اپنے حجاب کی پن کھول رہی تھی۔

چلو، میں تمہاری مدد کروں گی ایسی دوست ڈھونڈنے میں جو مضبوط مذہبی بیک گراؤنڈ رکھتی ہو، تاکہ وہ تمہیں بھی سکھا سکے۔ صادیہ اب اپنا عبایا اُتار کر اپنے بیگ میں ڈالنے لگی۔

جزاک الله، صادیہ اپنے عبایا کیوں اُتار دیا، وہ کتنا پیارا لگ رہا تھا۔ عائشہ صادیہ کو یہ کرتے دیکھ کر کافی حیران ہوئی اور اس سے سوال کیے بغیر نہ رہ سکی۔

مجھے عبایا نہیں پسند، میں مجبور ہوں انہیں پہننے کے لیے۔ صادیہ نے سوال ختم ہونے سے پہلے جواب دیا۔


"My name is Ayesha," Ayesha said, glancing at the girl seated beside her.

"My name is Syeda Sophia," Sophia replied, looking at her with a smile.

"You've been wearing such a veil since morning, you don't seem to have any difficulty," Ayesha observed the girl sitting next to her, and eventually, she leaned over to initiate a conversation.

"Haha, no, I don't have any difficulty. There are plenty of boys here, and even male teachers. Islam commands women to observe the veil, and I am fulfilling that command," Sophia spoke softly. Her voice was gentle and soothing, and her eyes twinkled with a smile.

"Sophia, you're so kind. Could you tell me about Islam so I can learn new things? I've come here to study and learn about Islam," Ayesha was deeply impressed by Sophia; she wished for a friend like her.

"Ayesha, have you noticed the girl wearing red lipstick?" Sophia gestured towards Sadiya.

"Yes, I've met her," Ayesha whispered to Sophia.

"Ayesha, never become like that girl, the kind of girl who hides her true self from her parents. She came in the morning wearing a veil, but now she's not wearing it in front of men... She'll wear the veil again on her way back and deceive her parents. Always express your true self to people," Sophia said, her sparkling eyes creating a bond in Ayesha's heart for Sophia.

"Yes, okay," Ayesha fell silent once again.


میرا نام عائشہ ہے۔ عائشہ نے اپنے ساتھ بیٹھی لڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

میرا نام سیدہ صوفیہ ہے۔ صوفیہ نے مسکراتی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بتایا۔

اپنے صبح سے ایسے نقاب کر رکھا ہے، اپکو مشکل نہیں ہوتی۔ عائشہ صبح سے اپنے ساتھ بیٹھی لڑکی کو دیکھ رہی تھی، اور بالآخر اُس نے اُس سے بات کرنے کے لئے پہلو کیا۔

ہاہا، نہیں مجھے مشکل نہیں ہوتی، یہاں بہت سارے لڑکے بھی ہیں، استاد بھی ہیں جو مرد ہیں، اسلام میں عورت کو پردے کا حکم دیا گیا ہے، اور میں اس حکم کی تکمیل کر رہی ہوں۔ صوفیہ نرم لہجے میں بولی۔ اُس کی کی آواز بہت نرم اور سکون دینے والی اور اُس کی آنکھیں جیسے مسکراتی ہوں۔

صوفیہ، آپ تو بہت اچھی ہیں، آپ مجھے اسلام کے بارے میں بتانا تاکہ میں نئی چیزیں سیکھ سکوں، میں یہاں اسلام سیکھنے اور پڑھنے آئی ہوں۔ عائشہ صوفیہ سے بہت متاثر ہوئی، وہ ایک ایسی ہی دوست چاہتی ہے۔

عائشہ، تم نے اس لڑکی کو دیکھا ہے جس نے لال رنگ کی لپسٹک لگا رکھی ہے؟ صوفیہ کا اشارہ صادیہ کی طرف تھا۔

جی، میں ملی بھی ہوں ان سے۔ عائشہ نے صوفیہ کو دھیمی آواز میں بتایا۔

عائشہ، کبھی اُس لڑکی جیسا نہ بننا، ایسی لڑکی جو اپنے والدین سے اپنا اصل چھپاتی ہو۔ وہ صبح ایک عبایا میں آئی تھی مگر اب وہ کیسے مردوں کے سامنے پھر رہی ہے... وہ واپسی میں پھر عبایا پہنیگی اور اپنے والدین کو دھوکہ دے گی۔ تم ہمیشہ اپنے اصل کو لوگوں پر ظاہر کرنا۔ صوفیہ اُن چمکتی آنکھوں سے عائشہ کے دل میں صوفیہ کے لیے میل پیدا کرتے ہوئے بولی۔

جی، اچھا۔ عائشہ ایک بار پھر خاموش ہو گئی۔


"Mom, you know, there are so many people here, but I just can't figure out who's good, who's bad, who I should be friends with, and who I shouldn't. There's this girl here who seems really nice, but she doesn't wear a veil in front of us; she wears it at home. And there's another girl who believed in Allah a lot, wore a veil, Yet, she never took a minute to speak ill of anyone," Ayesha frustratedly explained to her mother over the phone.

"Ayesha, dear, you can't judge people in just one day. Everyone has a story. Be good to everyone and give them time... I know my daughter is very understanding," Ayesha's mother reassured her daughter over the phone, easing her difficulties.

"Ammi, don't worry, I won't form opinions about people so quickly. I know everyone has a story hidden within them," Ayesha reassured her mother, her enthusiasm returning as she understood what she needed to do.


امی، آپکو پتا ہے، یہاں بہت لوگ ہیں پر مجھے سمجھ نہیں آتا کون اچھا ہے، کون برا ہے۔ کس سے دوستی کروں، کس سے نہیں کروں۔ یہاں ایک لڑکی ایسی ہے جو بظاہر بہت اچھی ہے مگر وہ ہمارے سامنے عبایا نہیں پہنتی اور گھر سے پہن کر آتی ہے اور ایک لڑکی ایسی ہے جو اللہ تعالی کو بہت مانتی ہے پردہ کرتی ہے مگر اس کو کسی کی برائی کرنے میں ایک منٹ نہیں لگتا۔ عائشہ اپنی امی کو بجھے ہوئے لہجے میں فون پر بتایا۔

عائشہ بیٹا لوگوں کو ایک ہی دن میں نہیں جانا جا سکتا، ہر انسان کی ایک کہانی ہوتی ہے، تم سب کے ساتھ اچھے سے رہو اور انکو وقت دو۔۔۔ میں جانتی ہوں میری بیٹی بہت سمجھدار ہے۔ عائشہ کی والدہ فون پر اپنی بیٹی کی مشکل آسان کرتے ہوئے بتایا۔

امی، آپ فکر نہ کریں میں اتنی جلدی لوگوں کے لئے اپنی رائے نہیں بناؤں گی، مجھے پتا ہے ہر شخص میں ایک کہانی چھپی ہے۔ عائشہ اب دوبارہ پرجوش ہو گئی جیسے وہ سمجھ چکی ہو اُسکے کیا کرنا ہے۔


Time was passing by. Ayesha was learning from Sophia and Sadiya, trying to understand them. Ayesha had already realized, just by looking at them and being with them, that they had hidden stories within them, but she still had to discover what those stories were.

As time passed, Ayesha continued to learn from Sophia and Sadiya, making efforts to understand them better. Just by observing them and spending time with them, Ayesha had already sensed that they harbored hidden stories within them. However, she still had to uncover the details of those stories.


وقت گزرتا رہا۔ عائشہ صوفیہ اور سعدیہ سے سیکھتی رہی اور ان کو سمجھنے کی کوشش کرتی رہی۔ عائشہ نے ان دونوں کو دیکھ کر اور ان کے ساتھ رہ کر یہ تو جان لیا تھا کہ وہ چھپائی کہانیاں ہیں پر وہ کہانیاں کیا ہیں ابھی انکو ڈھونڈنا باقی تھا۔

وقت کے ساتھ عائشہ صوفیہ کو زیادہ سمجھنے لگی، وہ صوفیہ کو اپنا بہترین دوست کہنے لگی اور اس کے گھر آنے جانے لگی۔ جب کہ سعدیہ سے صرف حال پوچھا کرتی اور کبھی کبھار بات کر لیا کرتی۔ البتہ، سعدیہ عائشہ کو اپنا دوست سمجھتی۔


"Sadiya, your father is waiting outside the gate," Ayesha informed Sadiya as she entered the canteen, where Sadiya was engrossed in her meal.

"My father is here? Really, after so long? I'm leaving for home," Ayesha quickly grabbed her belongings and rushed out.

"Sadiya, aren't you wearing your abaya?" Ayesha quickly reminded her, trying to prompt her memory about what she might be forgetting.

"Why should I wear it today, Ayesha? I used to wear it because of the bus loafer people, but no one in my house wears it... There's no need to wear it when going with Dad... I'm getting late," Sadiya's hurried explanation left Ayesha perplexed. Ayesha had initially considered her a deceitful girl, presenting herself differently in front of her parents than she actually is. However, she realized Sadiya's genuineness. Sadiya wasn't a hypocrite; she just had one flaw: she didn't wear the veil, and that was also because it wasn't customary in her house.

"Oh God, how could I judge someone's character like this? Oh God, how could I become so evil? How could I belittle Your creation by listening to someone else's opinion?" Ayesha was repenting now, realizing that Sophia had influenced her thinking, but she was also responsible for her own actions.

"I'll let Sophia know today how mistaken she is about Sadiya," Ayesha resolved as she gathered her things and set off for Sophia's house.


سعدیہ، باہر گیٹ پر تمہارے والد صاحب آئے ہیں۔ عائشہ، کینٹین میں آکر سعدیہ کو اطلاع دی جو کچھ کھانے میں مصروف تھی۔

والد صاحب آئے ہیں؟ سچی وہ کتنے ٹائم بعد آئے ہیں، میں تو گھر جا رہی ہوں۔ عائشہ اب اپنا سامان اُٹھا کر جلدی میں بھاگی۔

سعدیہ، تم عبایا نہیں پہنو گی؟ عائشہ اُس کو جلدی میں دیکھ کر اُس کو یاد دلوایا کے وہ کیا بھول رہی ہے۔

آج کیوں پہنوں گی یار، وہ تو میں بس کے لوفر لوگوں کی وجہ سے پہنتی ہوں، میرے گھر میں تو کوئی بھی نہیں پہنتا... اب والد صاحب کے ساتھ جاؤں گی تو اس کی ضرورت نہیں ہے... میں جا رہی ہوں دیر ہو رہی ہے۔ سعدیہ کی بات نے عائشہ کو حیران کر دیا۔ عائشہ اُس کو ایک بُری لڑکی سمجھتی ہے جو اپنے والدین کے سامنے کچھ اور ظاہر کرتی ہے اور اصل میں کچھ اور ہے، مگر وہ تو سچی ہے، وہ تو منافق نہیں ہے، اُس میں تو صرف ایک برائی ہے، کہ وہ پردہ نہیں کرتی ہے وہ بھی اس لئے کہ اس کے گھر میں اس کا رواج نہیں ہے۔

یا اللہ تعالی میں کیسے کسی کے کردار پر انگلی اٹھا سکتی ہوں، یا اللہ تعالی میں کیسے اتنی بُری بن گئی، میں نے کیسے کسی کی باتوں میں آکر تیری مخلوق کو خود سے کمتر سمجھ لیا۔ عائشہ اب اللہ تعالی سے توبہ کرتے ہوئے سوچنے لگی، وہ جانتی تھی یہ بات اُس کے دماغ میں صوفیہ نے ڈالی ہے مگر کیا وہ خود اس کے لئے بالکل ذمہ دار نہیں تھی۔

میں آج صوفیہ کو بتاؤں گی وہ سعدیہ کے بارے میں کتنا غلط سوچتی ہے۔ عائشہ اپنا سامان اُٹھا کر صوفیہ کے گھر جانے لگی۔


"Sophia?" Ayesha called out from outside Sophia's house.

"Please, let me go. I haven't done anything wrong. Please forgive me," Sophia's crying voice reached the doorstep.

"A dishonorable girl like you should be killed. Have you not even thought for a moment that there is respect in our neighborhood?" Mr. Hadi said while looking angrily at Sofia from the sofa.

"Dad, I like him..." As Sophia's words were still in her mouth, Saadi slapped her face hard.

"Will you be going inside?" the guard asked Ayesha, who had momentarily seemed lost but then regained her composure.

"I'll come again someday," Ayesha said as she turned back and left.


صوفیہ ؟ عائشہ نے صوفیہ کے گھر کے باہر کھڑے آواز دی۔

بھائی مجھے چھور دیں میں نے کچھ بھی نہیں کیا، مجھے معاف کر دیں۔ صوفیہ کے رونے کی آواز دروازے تک آئی۔

تم جیسی بے غیرت لڑکی کو تو مار ہی دینا چاہیے۔ کیا تمہیں ایک لمحے کے لئے بھی یہ خیال نہیں آیا کہ ہمارے محلے میں کیا عزت ہے؟ حدی صاحب صوفیہ کی طرف سوفے پر سے غصے سے دیکھتے ہوئے بولے۔

والد صاحب میں اسے پسند... صوفیہ کے الفاظ ابھی اسکے منہ میں ہی تھے، سعدی نے ایک زور دار تنماچہ اسکے منہ پر مار دیا۔

آپ اندر جائیں گی؟ گارڈ نے عائشہ سے پوچھا، جو کہیں کھو چکی تھی مگر پھر اس نے اپنا حوصلہ بحال کر لیا۔

نہیں میں پھر کبھی آجاؤ گی۔ عائشہ یہ بولتے ہی واپس چلی گئی۔


"Mom, you were right; everyone has a story, understanding them isn't easy... The one who's bad wears the cloak of dignity, and the good ones don't even care about what people say about them... Mom, I'm tired. I want to go back. I don't feel right here." Ayesha was perhaps crying now, realizing she had made such a big mistake in understanding people for the first time.

"Ayesha, I knew one day you would say this. This is very little; understanding humans is even more difficult. Until you don't find the highest level in this religion's teachings, you can't come back. You still need to learn, my daughter. I have faith in you," Ayesha's mother was now encouraging her with wisdom.

"Mom, I am very weak. Don't give me false comfort. What will I show to Allah? How did I start assigning statuses to people? When did Allah give me that right? Whether Allah forgives me or not," Ayesha was now crying loudly, her voice trembling with emotion.

"My daughter, Allah accepts true repentance, and you have repented. I know Allah will forgive you," Ayesha's mother could only offer consolation to her.

"Allah is the best judge, Mom. I'll talk to you later. Allah Hafiz," she said before hanging up the phone.


امی، آپ سچ کہتی تھیں ہر انسان میں ایک کہانی چھپی ہوتی ہے، انکو سمجھنا آسان نہیں ہوتا... جو بُرا ہے وہ خود پر شرافت کا لباس اوڑھے رکھتا ہے، اور جو اچھا ہے اُس کو فکر ہی نہیں ہے لوگ اُسکے بارے کیا کہتے ہیں... امی میں تھک گئی ہوں، میں واپس آنا چاہتی ہوں، میرا یہاں دل نہیں لگتا۔ عائشہ نے روتے ہوئے اپنی امی کو بتایا کہ شاید اس سے پہلی بار انسانوں کو سمجھنے میں غلطی ہو گئی ہے۔

عائشہ مجھے پتا تھا تم ایک دن ایسا ہی کہو گی، یہ تو بہت کم ہے، انسانوں کو تو سمجھنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے، اور اس مذہب کی تعلیم میں جب تک تم بہترین درجہ نہیں دھونڈ لیتی تم واپس نہیں آسکتی ہو، تمہیں ابھی بھی سیکھنے کی ضرورت ہے، مجھے میری بیٹی پر یقین ہے۔ عائشہ کی والدہ اس کو حکمت دیتے ہوئے بولی۔

امی میں بہت کمزور ہوں، آپ مجھے جھوٹی تسلی نہ دیں، میں اللہ تعالی کو کیا منہ دکھاؤں گی، میں نے کیسے لوگوں کو درجے دینا شروع کر دیا، مجھے اس کا حق اللہ تعالی نے کب دیا ہے۔ اللہ تعالی مجھے معاف بھی کرے گے کہ نہیں۔ عائشہ اب زور زور سے رو رہی تھی۔

میری بیٹی اللہ تعالی سچی توبہ قبول کرتا ہے اور تم توبہ کر چکی ہو میں جانتی ہوں اللہ تعالی تمہیں معاف کر دے گے۔ عائشہ کی امی اس کو تسلی دینے کے سوا کچھ نہیں کہہ سکی۔

اب میں فون رکھتی ہوں۔ اللہ تعالی بہتر مالک ہے، امی میں آپ سے بات بعد میں کروں گی اللہ حافظ۔ اُس نے فون رکھتے ہوئے کہا۔


Ayesha had now realized her mistake. She was determined not to repeat it; she had minimized her conversations with Sophia. While Sophia still viewed herself as superior and others as inferior, Ayesha no longer took her words to heart. She had become Sadiya's closest friend now and spent more time with her.

If you find yourself judging those close to you, stop. Allah does not grant us the authority to judge His servants. We are all human beings; we should fear the day when Allah will call us to account and might not exalt us above those whom we deem inferior.

If you have ever judged someone in this way, repent to Allah. Surely, Allah is the Forgiving, the Merciful.


عائشہ اب سیکھ چکی تھی کہ اُس نے کیا غلطی کی ہے۔ اب وہ اس غلطی کو نہیں دہرانا چاہتی تھی، اس نے اب صوفیہ سے بات کرنا کم کر دی تھی۔ صوفیہ اب بھی خود کو بہت اچھا اور لوگوں کو کمتر سمجھتی تھی مگر اب عائشہ اُسکی باتوں میں نہیں آتی تھی۔ وہ سعدیہ کی اب بہترین دوست بن چکی تھی اور اُس کے ساتھ زیادہ تر وقت گزارتی تھی۔

آپ اگر اپنے قریبی لوگوں کو پرکھتے ہیں تو ایسا کرنا چھوڑ دیں۔ اللہ تعالی ہمیں ہرگز یہ حق نہیں دیتا کہ ہم اس کے بندوں کو پرکھیں۔ ہم بھی انسان ہیں، ہمیں ڈرنا چاہیے اس دن سے جب اللہ تعالی ہمارا حساب کتاب کریں گے اور اللہ تعالی ہمیں اس شخص سے بھی نچلا درجہ نہ دے دے جسے ہم سب سے نیچا سمجھتے ہیں۔

اگر اپ نے کبھی کسی کو ایسے پرکھا ہے تو اللہ تعالی سے اس کی توبہ کر لیں توبہ کر لیں۔ بے شک، اللہ تعالی معاف کرنے والا اور غفور الرحیم ہے۔

photo-1596125160970-6f02eeba00d3.jpeg

Source


Surah Al-An'am (6:57)


"Those are the ones whom Allah has guided, so from their guidance take an example."


أُولَـٰئِكَ ٱلَّذِينَ هَدَى ٱللَّهُ فَبِهُدَىٰهُمُ ٱقْتَدِهْ

"یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے، پس ان کی ہدایت پر چلو۔"


Surah Al-Hujurat (49:11)


"O you who have believed, let not a people ridicule [another] people; perhaps they may be better than them; nor let women ridicule [other] women; perhaps they may be better than them. And do not insult one another and do not call each other by [offensive] nicknames. Wretched is the name of disobedience after [one's] faith. And whoever does not repent - then it is those who are the wrongdoers."


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِٱلْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ ٱلِـَٔاسْمَىٰ بَعْدَ ٱلْإِيمَـٰنِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ

"ایمان والو! ایک قوم ایک دوسرے کی طرح مذاق نہ کریں، شاید وہ ان سے بہتر ہوں، اور نا مردوں نا عورتوں میں ایک دوسرے کی طرح ان کا مذاق نہ کرو، شاید وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نا کوئی اپنے آپ کو مذاق بناۓ، اور نا کوئی بھائیوں کے لئے دوسرے عنوان لے، بعد ایمان والوں کے لئے بہت بد عنوان ہیں، اور جو شخص توبہ نہیں کرتا وہ ظالموں میں ہوتا ہے۔"


Surah Ar-Ra'd (13:40)


"Those are the ones whom Allah has guided, so from their guidance take an example."


أَوَلَمْ يَرَوْا۟ أَنَّآ نَأْتِى ٱلْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ وَٱللَّهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِۦ ۚ وَهُوَ سَرِيعُ ٱلْحِسَابِ

"کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کی سطح کو اس کے کناروں سے گھٹاتے ہیں۔ اور اللہ کا فیصلہ ہے، اس کے فیصلے کا کوئی موکل نہیں۔ اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔"


Surah Al-Hajj (22:68)


"And whoever obeys Allah and the Messenger - indeed, Allah is Hearing and Knowing."


وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌۭ

"اور جو شخص اللہ اور اُس کے رسول کی فرمانبرداری کرے، بیشک اللہ بہت سننے والا اور بہت خبردار ہے۔"

Join Binance through THIS LINK for 10% off trading fees! Let's save together! >>CLICK HERE!

ٹریڈنگ فیس میں 10% چھوٹ کے لیے اس لنک کے ذریعے بائننس میں شامل ہوں! >> یہاں کلک کریں!

H2
H3
H4
3 columns
2 columns
1 column
38 Comments
Ecency